Orhan

Add To collaction

تم فقط میرے

تم فقط میرے
از قلم سہیرا اویس
قسط نمبر20اور وہ بھی کار میں، عدیل کے قریب ہی ، فرنٹ سیٹ پر بیٹھی۔۔!! نیا پھڈا ڈالنے کے لیے، بالکل تیار تھی۔
 "عدیل۔۔!!" اس نے سخت لہجے میں پکارا۔
"جی۔۔!!" چاہت سے مخمور لہجے میں جواب آیا۔
"مجھے امی کے ہاں جانا ہے۔۔!!" وہ کرختگی سے بولی۔
"چلی جانا۔۔!! لیکن تم اتنے عجیب طریقے سے کیوں بول رہی ہو۔۔؟؟" اس نے ناسمجھی سے پوچھا۔
"میری مرضی۔۔!! میں جس کسی سے۔۔ جیسے بھی بات  کروں۔۔!! اور میں نے آپ سے ، امی کے گھر جانے والی بات، کوئی اجازت لینے کے لیے نہیں بولی، میں یہ کہہ رہی ہوں کہ مجھے ابھی امی کے گھر چھوڑ کر آئیں۔۔!!" وہ عجیب پاگلوں طرح ہائپر ہوئی۔
"ریلیکس عنقا۔۔!! کچھ ہوا ہے کیا۔۔؟؟ تم اس طرح کیوں بات کر رہی ہو؟؟" عدیل پریشان ہوا تھا۔۔ 
گاڑی چلاتے ہوئے، اس کی نظریں تو سامنے روڈ پر مرکوز تھیں لیکن دھیان عنقا کی طرف تھا۔
"کچھ نہیں ہوا۔۔!!! میں نے کوئی انوکھی بات تو نہیں کی۔۔ جو آپ اتنا حیران و پریشان ہو رہے ہیں۔۔!!" لہجے میں درشتی برقرار تھی۔
"میں کب کہہ رہا ہوں کہ کوئی انوکھی بات کر دی تم نے۔۔!! میں تو بس یہ پوچھ رہا ہوں کہ آخر ہوا کیا ہے جو تم اچانک اتنے عجیب لہجے میں بات کر رہی ہو۔۔!! مطلب صبح تک تو سب ٹھیک تھا۔۔ اب کیا ہوا ہے تمہیں۔۔!!" عدیل نے بھی اس بار ذرا کھردرا لہجہ اپنایا، ساتھ ہی ، اس کی پیشانی پر بل بھی نمودار ہوئے، حالانکہ وہ ابھی بھی اس کے لیے فکر مند اور پریشان تھا لیکن عنقا کا طرزِ کلام، اسے غیظ دلا رہا تھا، تبھی وہ تھوڑی سختی سے بولا تھا۔
سخت لہجوں کی، اسے عادت نہیں تھی ناں۔۔!! عنقا کا یہ بدلا ہوا،بے تکا، ترش انداز بھی اسے پسند نہیں آیا تھا اور وہ پریشان بھی تو ہوا تھا کہ کہیں کوئی مسئلہ تو نہیں ہوگیا اس کے ساتھ۔۔!!
"میں ابھی بھی بالکل ٹھیک ہوں۔۔!! بس مجھے آپ کے ساتھ نہیں رہنا۔۔!! مجھے امی کے گھر جانا ہے۔۔!! مجھے آپ زہر لگتے ہیں، اور مجھے ذرا سا بھی انٹرسٹ نہیں ہے آپ میں۔۔ بس آپ ابھی کے ابھی ، مجھے امی کے گھر چھوڑ کر آئیں۔۔!!" وہ ضد کرتے ہوئے مچل کر بولی۔۔۔ اور وہ حتیٰ الامکان عدیل کی تحقیر کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔اور تو اور۔۔ وہ اب رونے بھی لگی تھی۔۔ نجانے اسے کیا ہوا تھا۔۔!!
اس کے الفاظ ، کس حد تک سچ تھے یا کس حد تک جھوٹ تھے۔۔ یہ تو وہ خود بھی نہیں جانتی تھی۔
 عدیل کو اس کی لفاظی سن کر، ذرا تاؤ آیا تھا۔۔ مگر پھر ایک نظر اس کی طرف دیکھ کر سب سمجھ گیا، وہ جان گیا تھا۔۔ کہ وہ کس احساس کے تحت یہ سب کہہ رہی ہے۔۔!!
وہ سمجھ گیا تھا کہ وہ کیوں ایسے مچل رہی ہے۔۔!! اسے پتہ چل گیا تھا کہ اس کے اندر چل کیا رہا ہے۔۔!! اس لیے ذرا سا سوچنے کے بعد اس نے روتی ہوئی، عنقا کو مخاطب کر کے کہا، "اچھا ٹھیک ہے۔۔ رونا بند کرو۔۔۔!! میں ٹرن لیتا ہوں۔۔!! چھوڑ کر آتا ہوں تمہیں تمہاری امی کے گھر۔۔۔!!" وہ سپاٹ و سرد لہجے میں بولا اور موڑ لینے لگا۔
اپنی امی کے گھر والے راستے پر ، گاڑی کو مڑتا دیکھ کر ، عنقا کو تسلی ہوئی تھی۔۔ اسے کچھ حیرت بھی ہوئی۔۔ کیوں کہ عدیل عموماً، ایک دم ایسے کسی کی بات تو نہیں مانتا ہوتا۔۔ خیر وہ اس کے کہنے پر رونا بند کر چکی تھی۔۔ لیکن ہلچل تھی۔۔ جو اس کے اندر پیدا ہونے لگی تھی۔۔ وہ اپنے دل کی بھڑاس نکال کر بھی سکون محسوس نہیں کر پائی، وہ اتنی جلدی اپنی بات منوا کر بھی۔۔ خوش نہ ہو سکی۔۔!!
وہ ابھی اپنی الجھی الجھی سی کیفیت میں ہی مبتلا تھی کہ ٹرن لینے کے بعد وہ دوبارہ گویا ہوا، "مجھے ایک بات بتاؤ۔۔!! یہ جب تم اتنے دنوں سے میرے ساتھ، چپ چاپ، سکون سے رہ رہی تھیں تو اس وقت تمہیں احساس نہیں ہوا کہ تمہیں اپنی امی کے گھر جانا چاہیے۔۔!! مجھ سے خدمتیں کراتے ہوئے اور روز کی پک اینڈ ڈراپ سروس لیتے ہوئے، تمہیں فیل نہیں ہوا کہ میں تمہیں زہر لگتا ہوں۔۔!!" اس نے جی بھر کر طنز کیا۔
عنقا اس کی بات سن کر خوب کچی ہوئی تھی پر ڈھیٹ بنتے ہوئے، اس نے بھی عدیل کے طنز کا بھرپور دفاع کیا، "دیکھیں، میں نے اس وقت بھی آپ کے پیر نہیں پکڑے تھے کہ مجھے اپنے ساتھ رہنے دیں، نہ میں نے خدمات لینے کی کوئی خواہش ظاہر کی تھی۔۔ اور آپ خود بتائیں کہ میں ایگزامز کے دوران کوئی ایسا ایشو کیسے کھڑا کرتی ، جس سے میری پڑھائی ڈسٹرب ہونے کا خدشہ رہتا۔۔۔!! اب میں بالکل فری ہوں ناں۔۔ اس لیے سکون سے اپنے لیے اسٹینڈ لوں گی۔۔!!" اس نے پہلے تو عدیل کے طنز کا حساب برابر کیا اور پھر ذرا اترا کر اپنا پلین بتایا۔
اس کی باتیں سن کر عدیل کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑی۔۔ اس کے ذہن میں ایک زبردست سا آئیڈیا کوندا، اب وہ بڑے مزے سے عنقا کو پاگل بنانے والا تھا۔۔ عنقا نے اپنی طرف سے تو ، امی کے گھر جانے والا کوئی بہت ہی ہنگامہ خیز شوشہ چھوڑا تھا۔۔ لیکن بے چاری۔۔ اسے کیا پتہ تھا کہ اس نے عدیل سے پنگا لیا ہے۔۔ عدیل جیسا شاطر تو اگلے کو اسی کی چال میں پھنسانے کا ہنر رکھا کرتا ہے۔۔ ہائے معصوم۔۔!! اب اس کی چالبازی کا شکار ہونے لگی تھی۔
"ایک بات بتاؤ۔۔!! تم سچ میں اسی لیے جانا چاہ رہی ہو۔۔ کہ میں تمہیں واقعی بہت برا لگتا ہوں۔۔!!" عدیل نے آنکھیں سکیڑتے ہوئے، بڑے انہماک سے پوچھا۔
"ظاہر ہے۔۔!! اور کیا وجہ ہو گی بھلا۔۔!!" عنقا نے سر جھٹکتے ہوئے جواب دیا۔۔ جیسے وہ عدیل کی کم فہمی کا مذاق اڑا رہی ہو۔۔ کہ لو بھئی۔۔ اتنے بڑے آدمی کو، اس سے دوری اختیار کرنے کا مقصد ہی نہیں سمجھ آیا۔
"مجھے تو کچھ اور وجہ لگتی ہے۔۔!!" اس مشکوک لہجے میں کہا۔
"سیریسلی۔۔!! پھر تو آپ وہ وجہ بھی بتادیں۔۔!! جو آپ کو لگ رہی ہے۔۔!!" وہ مضحکہ خیز لہجے میں بولی۔
پتہ نہیں ، آج اسے ہو کیا رہا تھا۔۔ وہ اس کا مذاق اڑانے سے باز ہی نہیں آ رہی تھی۔۔!!
"دیکھ لو۔۔۔!! اگر وجہ بتادی ناں۔۔ تو تمہارے چھکے چھوٹ جائیں گے۔۔!!" عدیل نے اس کا تجسس بڑھایا۔
وہ واقعی متجسس بھی ہوئی تھی۔۔
"حیرت کی بات ہے۔۔!! ویسے اب آپ یہ باتوں کو یہاں وہاں مت گھمائیں۔۔ سیدھا ٹاپک پر آئیں ۔۔ سمجھے۔۔!!" وہ دھونس جماتے ہوئے کہنے لگی۔
"اے۔۔۔ مسز۔۔!! ذرا ٹون سیٹ کرو اپنی۔۔!! یو نو، مجھے پسند نہیں ہے ایسا لہجہ۔۔!!" عدیل نے اس کی بات کا جواب دینے کی بجائے۔۔ الٹا وارن کیا۔
"اووو۔۔ مسڑ۔۔!! آپ بھی بات گول مول نہ کریں۔۔ بلکہ سیدھا سیدھا جواب دیں۔۔!!" اس نے دھونس جمانے والی ٹون برقرار رکھی۔۔وہ بھی کہاں ماننے والی تھی۔
"اچھا۔۔۔!!! تو سنو۔۔مسسز۔۔!! تمہیں میں بالکل زہر نہیں لگتا۔۔ ان فیکٹ اب تو میں تمہیں بہت اچھا لگنے لگا ہوں۔۔!! اب یہ مت پوچھنا کہ مجھے کیسے پتہ چلا۔۔!! میں یہ محسوس کر سکتا ہوں۔۔!! یو نو۔۔!!" اس نے مزے لیتے ہوئے کہا۔
جیسے جیسے وہ یہ لفظ ، اپنی زبان سے ادا کر رہا تھا، ویسے ویسے عنقا کے دل کی حالت تبدیل ہو رہی تھی۔۔ اس نے بڑی مشکل سے خود پر قابو پاتے ہوئے اپنی زبان کھولی۔۔،، 
"خوش فہمیاں ہیں آپ کی۔۔!!" کہنے کو اس نے ، عدیل کے اندازے کی نفی کی تھی۔۔ پر اتنا سا جملہ کہتے ہوئے وہ لرزی تھی۔۔ اٹکی تھی۔۔ کپکپائی تھی۔
اس کے اتنے سے جملے کی ادائیگی۔۔ نے عدیل پر بہت کچھ واضح کر دیا تھا۔۔ وہ اپنے اندازے میں سو فی صد درست تھا۔۔!! اور اس کا اندازہ، عنقا کو ابھی ہوا تھا۔۔ اسے، اپنے آپ میں ہی ایک شور سا اٹھتا محسوس ہوا۔۔ وہ شور جن آوازوں پر مشتمل تھا۔۔ جو کچھ عنقا ہر آشکار کر رہا تھا۔۔ یہ تو اس نے اپنے وہم و گمان میں بھی نہیں سوچا تھا۔۔ بھلا وہ کیسے اس جنگلی کو اپنا دل سونپ سکتی تھی۔۔!! 
اسے خود پر یقین نہیں آ رہا تھا۔۔۔ پھر اس نے ، ایک کمزور سا دفاع کیا۔۔ اس نے اپنے سبھی جذبوں کو وہم کا نام دے کر خود کو تسلی دی۔۔ اور آگے سے کچھ نہیں بولی۔
"خوش فہمی نہیں، یقین ہے۔۔!! اگر چاہو تو ثابت کر سکتا ہوں۔۔!!!" اس نے چیلنج کیا۔
"کریں ثابت۔۔!!" وہ بھی آگے سے جوش میں آ کر جلدی جلدی بول گئی۔۔اور اب پچھتائی۔۔!! کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ اب عدیل ضرور ایسا کچھ بولے گا۔۔!! جس سے وہ اپنی بات سچ میں ثابت کرے گا۔۔!!
"دیکھو۔۔ سمپل سی بات ہے۔۔!! تمہیں مجھ سے محبت ہوگئی ہے ناں۔۔!! اس لیے تم مجھ سے بھاگنا چاہ رہی ہو۔۔!! کیوں کہ تم مجھ سے صرف نفرت کرنا چاہتی تھیں۔۔ اب غلطی سے میں تمہیں پسند آ گیا ہوں۔۔!! اور تم اس بات کا اقرار کرنے سے ڈرتی ہو۔۔!! اس لیے تم نے مجھ سے دور جانے کا فیصلہ کیا ہے۔۔!! اگر ایسا نہ ہوتا تو تم۔۔ یوں اچانک کیوں۔۔دور بھاگنے کی کوشش کرتیں۔۔!! اگر ایسا نہ ہوتا تو تم۔۔ پہلے کہ طرح ہی کامپرومائز کرتے ہوئے، سکون سے میرے ساتھ رہتیں۔۔!!تم بتاؤ۔۔ میں صحیح کہہ رہا ہوں ناں۔۔۔؟؟؟" عدیل نے بڑا خوش ہوتے ہوئے، عنقا کو جلا جلا، نان سٹاپ ، اپنے خالص خیالات پلس اندازے بتائے، اور آخر میں تصدیق بھی چاہی۔
عنقا ،بھلا کیسے ، اس کی ہر بات ، ہر اندازے کی تصدیق کر دیتی۔۔!!!

   1
0 Comments